خلافتِ ابو بکر رضی اللہ عنہ کو ابتدائی مشکلات اور ان کی سرکوبی
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو مسند آرائے خلافت ہوتے ہی اپنے سامنے صعوبات،مشکلات اور خطرات کا ایک پہاڑ نظر آنے لگا،ایک طرف جھوٹے مدعیان نبوت اٹھ کھڑے ہوئے تھے،دوسری طرف مرتدین اسلام کی ایک جماعت علم بغاوت بلند کئے ہوئے تھی،منکرین زکوٰۃ نے علیحدہ شورش برپاکر رکھی تھی،ان دشواریوں کے ساتھ حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کی مہم بھی درپیش تھی جن کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی حیات ہی میں شام پر حملہ آور ہونے کا حکم دیا تھا، اسی مہم کے متعلق صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے رائے دی کہ اس کو ملتوی کرکے پہلے مرتدین وکذاب مدعیان نبوت کا قلع قمع کیا جائے؛لیکن خلیفہ اول کی طبیعت نے گوارا نہ کیا کہ ارادہ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم اور حکم رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم معرض التوا میں پڑ جائے اور جو علم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایما سے روم کے مقابلہ کے لئے بلند کیا گیا تھا اس کو کسی دوسری جانب حرکت دی جائے؛چنانچہ آپ رضی اللہ عنہ نے برہم ہوکر فرمایا"خداکی قسم! اگر مدینہ اس طرح آدمیوں سے خالی ہوجائے کہ درندے آکر میرے ٹانگ کھینچنے لگیں جب بھی میں اس مہم کو روک نہیں سکتا"۔
(تاریخ الخلفاء۱۷)
🌸 اسامہ بن زیدرضی اللہ عنہ والی مہم
غرض خلیفہ اول نے خطرات ومشکلات کے باوجود حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ کو روانگی کا حکم دیا اور خود دور تک پیادہ پا مشایعت کر کے ان کو نہایت زریں ہدایات فرمائیں،چونکہ اسامہ ؓ گھوڑے پر سوار تھے اور جانشین رسول صلی اللہ علیہ وسلم پیادہ پاگھوڑے کے ساتھ دوڑ رہا تھا، اس لئے انہوں نے تعظیماً عرض کیا کہ" اے جانشین رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! خدا کی قسم آپ گھوڑے پر سوار ہولیں ورنہ میں بھی اترتاہوں"۔بولے،"اس میں کیا مضائقہ ہے، اگر میں تھوڑی دیر تک راہِ خدا میں اپنا پاؤں غبار آلود کروں، غازی کے ہر قدم کے عوض سات سونیکیاں لکھی جاتی ہیں"۔
(طبری ۱۸۵ )
حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ کی مہم رخصت ہو کر حدود شام میں پہنچی اور اپنا مقصد پورا کرکے یعنی حضرت زید رضی اللہ عنہ کا انتقام لے کر نہایت کامیابی کے ساتھ چالیس دن میں واپس آئی، حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے صحابہ کرام کے ساتھ مدینہ سے باہر نکل کر نہایت جوش مسرت سے ان کا استقبال فرمایا۔
🌼 مدعیانِ نبوت کا قلع قمع
سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی زندگی میں بعض مدعیان نبوت پیدا ہوچکے تھے؛چنانچہ مسیلمہ کذاب نے ۱۰ھ میں نبوت کا دعویٰ کیا تھا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو لکھا تھا کہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نبوت میں شریک ہوں، نصف دنیا آپ کی ہے اور نصف میری، سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو جواب دیاتھا۔
من محمد رسول اللہ الی مسیلمۃ کذاب اما بعد فان الارض للہ یورثھا من یشاء من عبادہ والعاقبۃ للمتقین۔
(تاریخ طبری : ۱۷۴۹)
"محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے مسیلمہ کذاب کو،اما بعد دنیا خدا کی ہے وہ اپنے بندوں میں سے جسکو چاہے گا اسکا وارث بنائیگا اور انجام پرہیز گاروں کے لئے ہے"۔
لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعداور بھی بہت سےمدعیان نبوت پیدا ہوگئےتھے اور روزبروزان کی قوت بڑھتی جاتی تھی؛چنانچہ طلیحہ بن خویلد نے اپنے اطراف میں علم نبوت بلند کیا تھا بنو غطفان اس کی مددپر تھے اور عیینہ بن حصن فزاری ان کا سردار تھا، اسی طرح اسود عنسی نے یمن میں اور مسیلمہ بن حبیب نے یمامہ میں نبوت کا دعویٰ کیا تھا ، مردتو مرد یہ ایسا مرض عام ہوگیا تھا کہ عورتوں کے سرمیں بھی نبوت کا سودا سماگیا تھا، چنانچہ سجاح بنت حارثہ تمیمیہ نے نہایت زور شور کے ساتھ نبوت کا دعویٰ کیا تھا اور اشعث بن قیس اس کا داعی خاص تھا، سجاح نے آخرمیں اپنی قوت مضبوط کرنے کے لئے مسیلمہ سے شادی کرلی تھی اور یہ مرض وباء کی طرح تمام عرب میں پھیل گیا تھا، اس کے انسداد کی نہایت سخت ضرورت تھی اس بنا پر حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ نے خاص طور پر اس کی طرف توجہ کی اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہ سے مشورہ کیا کہ اس مہم کے لئے کون شخص زیادہ موزوں ہوگا؟ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا نام لیا گیا ؛لیکن وہ ان کی کچھ مجبوریاں تھیں اس لئے قرعہ انتخاب حضرت خالدبن ولید کے نام نکلا چنانچہ وہ ۱۱ھ میں حضرت ثابت ابن قیس انصاری رضی اللہ عنہ کے ساتھ مہاجرین وانصار کی ایک جمعیت لیکر مدعیان نبوت کی سرکوبی کے لئے روانہ ہوئے۔
(تاریخ طبری : ۱۸۸۷)
حضرت خالدبن ولید رضی اللہ عنہ نے سب سے پہلے طلیحہ کی جماعت پر حملہ کر کے اس کے متبعین کو قتل کیا اور عیینہ بن حصن کو گرفتار کر کے تیس قیدیوں کے ساتھ مدینہ روانہ کیا اور عینیہ بن حصن نے مدینہ پہنچ کر اسلام قبول کرلیا؛لیکن طلیحہ شام کی طرف بھاگ گیا اور وہاں سے عذر خواہی کے طور پر دو شعر لکھ کر بھیجے اور
تجدید اسلام کر کے حلقہ مومنین میں داخل ہوگیا
ابراہیم الغُریب:
مسیلمہ کذاب کی بیخ کنی کے لئے حضرت شرجیل بن حسنہ رضی اللہ عنہ روانہ کئے گئے ؛لیکن قبل اس کے کہ وہ حملہ کی ابتداء کریں حضرت خالدبن ولید رضی اللہ عنہ کو ان کی اعانت کے لئے روانہ کیا گیا؛چنانچہ انہوں نے مجاعہ کو شکست دی، اس کے بعد خود مسیلمہ سے مقابلہ ہوا مسیلمہ نے اپنے متبعین کو ساتھ لے کر نہایت شدید جنگ کی اور مسلمانوں کی ایک بہت بڑی تعداد اس میں شہید ہوئی جس میں بہت سے حفاظ قرآن تھے ؛لیکن آخری فتح مسلمانوں کے ہاتھ رہی اور مسیلمہ کذاب حضرت وحشی ؓ کے ہاتھ سے مارا گیا، مسیلمہ کی بیوی سجاح جو خود مدعی نبوت تھی بھاگ کر بصرہ پہنچی اور کچھ دنوں کے بعد مرگئی۔
(ایضاً ۱۴۷)
اسود عنسی نے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ ہی میں نبوت کا دعویٰ کیا تھا، حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں اس کی قوت زیادہ بڑھ گئی تھی، اس کو قیس بن مکشوح اور فیروز دیلمی نے نشہ کی حالت میں واصل جہنم کیا۔
(تاریخ طبری ۱۸۶۳)
🌹 مرتدین کی سرکوبی
حضرت سرورکائنات صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بہت سے سرداران عرب مرتد ہوگئے اور ہر ایک اپنے حلقہ کا بادشاہ بن بیٹھا؛چنانچہ نعمان بن منذر نے بحرین میں سراٹھایا، لقیط بن مالک نے عمان میں علم بغاوت بلند کیا، اسی طرح کندہ کے علاقہ میں بہت سے بادشاہ پیدا ہوگئے، اس لئے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے مدعیان نبوت سے فارغ ہونے کے بعد اس طوائف الملوکی کی طرف توجہ کی؛چنانچہ علاء بن حضرمی رضی اللہ عنہ کوبحرین بھیج کر نعمان بن منذرکا قلع قمع کرایا،اسی طرح حذیفہ بن محصن کی تلوار سے لقیط بن مالک کو قتل کراکے سرزمین عمان کو پاک کیا اور زیاد بن لبید رضی اللہ عنہ کے ذریعہ سے ملوک کندہ کی سرکوبی کی۔
(تاریخ طبری ص ۱۸۶۳)
🌷 منکرین زکوۃ کی تنبیہ
مدعیان نبوت اور مرتدین کے علاوہ ایک تیسرا گروہ منکرین زکوٰۃ کا تھا چونکہ یہ گروہ اپنے کو مسلمان کہتا تھا اور صرف زکوۃ ادا کرنے سے منکر تھا اس لئے اس کے خلاف تلوار اٹھانے کے متعلق خود صحابہ رضی اللہ عنہ میں اختلاف رائے ہوا؛ چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ جیسے سخت صاحب رائے بزرگ نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے کہا کہ آپ ایک ایسی جماعت کے خلاف کس طرح جنگ کرسکتے ہیں جو توحید ورسالت کا اقرار کرتی ہے اور صرف زکوٰۃ کی منکر ہے لیکن خلیفہ اول کا غیر متزلزل ارادہ واستقلال اختلاف رائے سے مطلق متاثر نہ ہوا، صاف کہہ دیا"خدا کی قسم! اگر ایک بکری کا بچہ بھی جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیا جاتا تھا کوئی دینے سے انکار کرے گا تو میں اس کے خلاف جہاد کروں گا، اس تشدد کا نتیجہ یہ ہوا کہ تھوڑی سی تنبیہ کے بعد تمام منکرین خودزکوۃ لے کر بارگاہ خلافت میں حاضر ہوئے اور پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو بھی حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی اصابت رائے کا اعتراف کرنا پڑا۔
(بخاری ج ۱ ص ۱۸۸)
بعد دور خلافت مشکلات
ReplyDeleteAlso check: Islamic Wallpaper, DP, Photo & Images
ReplyDeleteعہد صدیقی کی مشکلات
ReplyDelete